اکرم کنجاہی ۔۔۔ صبیحہ صبا کی شاعری

صبیحہ صبا

نصف درجن کے قریب مجموعہ ہائے کلام کی خالق صبیحہ صبا کا شمار،طویل شعری ریاضت کی وجہ سے، اِس وقت اُردو کی کہنہ مشق شاعرات میں ہوتا ہے۔اُن کی شعری تربیت میںاگر ایک طرف ساہیوال جیسے مردم خیز خطے میں ادب دوست ماحول نے کردار ادا کیا تو دوسری طرف اُن کے شریکِ حیات صغیر احمد جعفری کی سخن فہمی اور ادب دوستی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ دونوں ادبی شخصیات بیرونِ ملک مقیم تھیں تو وہاں بھی اُردو منزل میں ادبی تقریبات کا بھر پور انعقاد کرتی تھیں اور اب جب کہ کراچی میں مقیم ہیں تو یہاں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ سندھ میں زیادہ تر اُردو کے شعرا کرا چی میں مقیم ہیں۔یہاں طرزِ زندگی پنجاب کے قصباتی ماحول اور بود و باش سے قطعی مختلف ہے، صبیحہ کی شعری اٹھان میں ساہیوال میں بیتے ایام کے تجربات و مشاہدات کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔اُن کے ہاں جمال اور خیال کا حسین توازن ہے۔اُن کی وجدانی محسوسات اور شکستِ آرزو نے شعر کو جمالیاتی آہنگ اور رچاؤ بخشتا ہے تو تیز تر شعلۂ احساس کلام کو عصری معنویت اور مقصدیت عطا کرتا ہے۔ صبیحہ صبا کی شاعری کی تین اہم جہات ہیں:
۱۔ محبت میں انکشافِ ذات
۲۔ اپنے دیس سے عقیدت و محبت اور اُس کے باسیوں سے اپنائیت
۳۔ عصری حسیت
بنیادی طور پر غزل ہی اُن کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے جسے انہوں نے زیادہ اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور جس میں ایک طرف تو اُن کی جمالیاتی فکر کا اظہار ہوا ہے تو دوسری طرف غمِ زمانہ کے حوالے سے متنوع مضامین ملتے ہیں۔اُن کی غزلیات کے مصارع حدیثِ دل کے خوب صورت اقتباسات ہیں۔انہوں نے ہجر و فراق میں ویرانۂ جاں کو یاد کے چراغوں سے روشن کر رکھا ہے ۔ وہ اپنی غزل کی پرورش محبت و چاہت کے حسین و کومل جذبوں سے کرتی ہیں۔جمالیاتی کیفیات، سرشاری اور غنائیت نے شعری تاثیر میں اضافہ کیا ہے:

محبتوں کے سفر میں کسی کی یاد صبا
اندھیری شب میں بہت روشنی جلاتی ہے
٭
تو نہیں ہے تو مری شام اکیلی چپ ہے
یاد میں دل کی یہ ویران حویلی چپ ہے
٭
دل کا کیا ہے یہ دھڑکتا ہے محبت کے لیے
کوئی اقرار نہ کر یاد دہانی لے جا
٭
موسم یہ اُداسی کا برسوں سے نہیں بدلا
ویسے تو سبھی موسم ہر سال بدلتے ہیں
٭
اک تری یاد سے یادوں کے خزانے نکلے
ذکر تیرا بھی محبت کے بہانے نکلے
دل میں کچھ ٹوٹنے لگتا ہے ترے ذکر کے ساتھ
چند آنسو تیری الفت کے بہانے نکلے

صبیحہ صبا کی شخصیت و شاعری کا خمیر ساہیوال کی مٹی سے اٹھا ہے۔وطن کی محبت اشعار کے پھولوں اور کلیوں میں بسی ہوئی ہے، جس کا احساس قاری کے حواس کو خوش کُن اور پسندیدہ ذائقوں سے آشنا کرتا ہے۔اُن کے اظہار میں جذبِ دروں کی وہی کیفیت ہے جس کے زیرِ اثر کوئی محب اپنی محبوب ہستی کاذکر کرتا ہے۔یہ محبت اُن کے رگ و پے میں بسی ہوئی ہے۔ وہ اپنے کلام میں اَِس خواہش کا اظہار کرتی ہیں کہ اِس دیس کی تمام تر خوشیاں اور پھول پھل اہلِ وطن کے لیے ہوں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب وطن کی مٹی سونا اگلتی ہے تو میرے وطن کے عوام مفلس و نادار کیوں ہیں؟۔ خاکِ وطن کا ذرّہ ذرّہ انہیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہے، اِس لیے خاکِ وطن کی عظمت کے گیت اُن کے لبوں پر ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک وطن سے دور رہی ہیں مگر وطن کی طرف لوٹ آنے کی خوشی اشعار میں ڈھل گئی ہے۔وہ پاک دھرتی کو باغ تو ہر فرد کو باغباں سمجھ کر اُس سے توقع کرتی ہیں کہ وہ اِس چمن کے پھولوں کو اپنے لہو سے سینچے گا اور اگر کبھی ضرورت پڑی تو چمن کی حفاظت اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے بھی کرے گا:

وطن سے مہر و وفا جسم و جاں کا رشتہ ہے
وطن ہے باغ تو پھر باغباں کا رشتہ ہے
وطن سے دور رہیں یا وطن میں بس جائیں
یہ مہرباں سے کسی مہرباں کا رشتہ ہے
٭
شامل ہیں اسی ملک کی تعمیر میں ہم بھی
یہ ملک ہے تصویر، تو تصویر میں ہم بھی
٭
سونا ہے ہر اک ذرہ مری دھرتی کا لیکن
کیوں لوگ صبا ہیں یہاں نادار زیادہ
٭
وطن دل میں رہا دلدار ہو کر
میں لوٹ آئی سمندر پار ہو کر
٭
کیوں سارے ثمر غیر کا ہوتے ہیں مقدر
سب اپنی زمیں اپنے در وبام کے ہوتے

اُن کے کلام میں ہمارے سماج اور معاشرت کی سچی متحرک تصویریں دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے کلاسیکی رجحانات سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرتی اور سماجی حقیقتوں پر بات کی۔ اگرچہ ایک حساس شاعرہ ہیں جن کی حساسیت کلام اور شخصیت دونوں میں جھلکتی ہے مگر اپنے عہد کی مزاج آشنا بھی ہیں۔صبیحہ صبا کا سب سے اہم موضوع ہماری سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی ہے جس میں واضح طور پر دو طبقات ہیں اور یہ تقسیم حساس ذہنوں کو کرب میں مبتلا کردیتی ہے۔اُن کا یہ کرب اُن کے درد مند دل سے اٹھتا اور قاری کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔ہماری معاشرت کا یہ ایک منفی پہلو ہے کہ ہم کسی کو آگے بڑھتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتے۔راستے میں روڑے اٹکانا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ نہ کر پائیں تو غیبت کی انتہا کر دیتے ہیں۔ صبیحہ نے اِس کی مثال اپنے اشعار میں پنچھیوں کی ڈار سے دی ہے کہ اُن کی اُڑان خوب سے خوب تر ہونے لگتی ہے مگر ہم کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کر کے انہیں زیرِ دام لے آتے ہیں۔مختصر یہ کہ انہوں نے غزل کے متعین شدہ فکری و اسلوبیاتی حصار تو توڑ کر فکرو خیال کی تازگی، جذبہ و احساس کی کی صداقت اور شعور و مشاہدے کی بصیرت کے ساتھ ہُنر مندانہ اظہار کیا ہے۔ جب وہ چاہتی ہیں کہ قلم کو تلوار کر لیا جائے تا کہ ظالم پر موثر وار کیا جا سکے:

قلم کو اس لیے تلوار کرنا
کہ بڑھ کے ظلم پر ہے وار کرنا
٭
پوری وادی میں بھر گئے شعلے
جو بھی نکلا ہے جل کے نکلا ہے
٭
پڑ گیا ہے واسطہ طوفان سے
خود ہی چھوڑی ہاتھ سے پتوار کیوں
٭
حالات اس طرح رہتے ہیں زمانے کے
دیکھا ہے یہی ہم نے سلطان بدلتے ہیں
٭
اُڑان خوب تر ہوئی جو پنچھیوں کی ڈار کی
تو گھیر گھار کر کسی نے زیرِ دام کر دیا

صبیحہ صبا کو مخلوقِ خدا سے پیار ہے۔اُن کا کلام زندگی کی مثبت قدروں کا ترجمان ہے اور پُر خلوص جذبات کا بے ساختہ اظہار ہے۔وہ الفاظ سے اپنے عہد کے چلن کی تصویر کشی کرتی ہیں اور اِس میں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے خوںچکاں مشاہدات کو قرطاس پر منتقل کرنے سے پہلے اپنے داخلی کرب اور محسوسات کے پرزم سے گزارتی ہیں۔ اِس سے اندازہ کیجیے کہ مصائب و تکالیف کے کتنے اشک آور پہلو قاری کے سامنے آتے ہیں۔ترقی پسندوں نے شاعری کو انسانی مسائل اور مصائب سے ہم آہنگ کیا تھا۔صبیحہ آج کے دور کی شاعرہ ہیں۔وہ نہ تو ترقی پسندوں کے عہد میں ہیں اور نہ ہی کسی نظریے کو سامنے رکھ کے شعر کہتی ہیں البتہ اُن کے اپنی سوچ داخلیت اور اظہارِ ذات تک محدود نہیں ہے۔وہ انسان کو انسان کے ہاتھوں مجبور و مقہور دیکھتی ہیں۔یہ مشاہدہ کرتی ہیں کہ ایک طبقہ ہے جو دوسروں کو خواب دکھا کر اپنی سیاست کا کھیل کھیل رہا ہے۔مفلس کی مفلوک الحالی اور غربت اُس طبقے کی سب سے بڑی تجارت ہے تو وہ اُن بالا تر طبقات کو جرأت مندانہ اسلوب میں بتاتی ہیں کہ اپنی روش بدلو ورنہ ایک دن جھکے ہوئے سر اٹھ سکتے ہیں اور مظلوم طبقہ سینہ تان کر ظالم کے مقابل کھڑا ہو سکتا ہے۔ وہ بات کرنے کا ہنر جانتی ہیں، انفرادی لہجے کو برقرار رکھتی ہیں لیکن کبھی کبھی ان کا لب و لہجہ ان کے اندرونی کرب کی غمازی کرتا ہے۔بہر حال معاشرے کی سفّاکی اور منافقت پر لکھنے کا یہ کام انہوں نے شاعرانہ نزاکتوں کو قائم رکھتے ہوئے کیا ہے۔کچھ ناقدین ادب میں اِس طرح کے جدید رجحانات یا عصری حسیت کو ترقی پسندی کے توسیع بھی کہتے ہیں:

سفاکی کا زہر انڈیلا جاتا ہے
انسانوں کے خون سے کھیلا جاتا ہے
اپنی سوچ سے کام نہ لینے والوں کو
پستی میں کچھ اور دھکیلا جاتا ہے
لوگ ذرا سی ہمدردی کر جاتے ہیں
کرب کو اپنے خود ہی جھیلا جاتا ہے
٭
اڑان خوب تر ہوئی جو پنچھیوں کی ڈار کی
تو گھیر گھار کر کسی نے زیرِ دام کر دیا

مندرجہ ذیل غزل کے اشعار پر غور کیجیے، غزل میں اُن کا عمومی طور پر دھیما لہجہ، کس طرح بلند آہنگ ہوا ہے۔معروضی تکلیف دہ حقیقتوں کو دیکھ کر، ایک صاف گو سخن ورکا لہجہ اگرچہ تبدیل ہو جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں مگر شاعرات کے ہاں ایسا کم کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ صبیحہ صبا کے ہاں رومان پرور لہجے کے دل پذیر خیالات ہی نہیں نئی ترقی پسندانہ سوچ بھی ہے جسے ترقی پسندی کا جدید دور کہنا بے جا نہ ہو گا۔ بد نصیبی ہے کہ ہمارے معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ گمبھیر ہو کر سامنے آئے ہیں جو ادب میں ایک مخصوص سوچ کے حامل ادبأاور شعرأ کی یلغار کے باعث پس نظر میں چلے گئے تھے مگر بڑھتی ہوئی معاشی و معاشرتی خلیج نے سماجی حقیقت نگاری کے تہہ در تہہ امکانات کے در وا کر دئیے ہیں اور ٹیری ایگلٹن ((Terry Eagleton کی بات کو سچ ثابت کر دیا ہے کہ شاعری نظریاتی آدرشوں کی خواب ناک فضا کو دامِ تحریر میں لانے کا موثر ذریعہ رہی ہے اور ہے:

صرف ریشم نہیں تلوار بھی ہو سکتے ہیں
یہ جو مظلوم ہیں خونخوار بھی ہو سکتے ہیں
ہم کسی عہدِ وفا کے لیے پابند نہیں
ہم ترے نام سے بیزار بھی ہو سکتے ہیں
ہو مقدر میں اندھیرا یہ ضروری تو نہیں
خوابِ غفلت سے وہ بیدار بھی ہو سکتے ہیں
کسی مظلوم کے جھلسے ہوئے چہرے کی طرح
یہ کسی اور کے رخسار بھی ہو سکتے ہیں
میرے شہروں میں قیامت سی مچانے والے
ہاتھ باندھے پس دیوار بھی ہو سکتے ہیں

ہمارے پاس کسی تخلیق کار کی فکری وسعتوں کی پیمائش کا ایک ہی فیتا ہے کہ ہم اُس کے کلام کا بغور مطالعہ کریں اور مضامین کے تنوع کا اندازہ کرنے کی کوشش کریں۔مرد شاعری کرتے ہیں تو ان کو بھی اپنی ذات میں جھانکنا پڑتا ہے۔ صبیحہ صبا نے بھی من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پایا ہے۔جو دیکھتی ہیں اپنے داخلی جذبات و احساسات کی روشنی میں بیان کرتی ہیں۔کلام درد مندی سے مملو ہے۔ کہیں کہیں تو معاشرتی بے حسی پر جھنجھلاہٹ بھی ہے۔ کم کم شاعرات کے ہاں اتنی بلند آہنگ ہے۔کئی غزلیات مسلسل ایک ہی موضوع پر یا ایک ہی فضا میں ہیں۔ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادب اُن کے لیے محض حسن اور جذبے کا تخلیقی اظہار ہی نہیں بلکہ تنقیدِ حیات بھی ہے۔لکھا ہوا لفظ اُن کے ہاں اِس حوالے سے مقدس ہے کہ وہ مظلوم و مجبور کی حمایت میں کمک کے طور پر آتا ہے۔اُن کی شاعری کا یہ ایسا رخ ہے جو مجھے شاعرات کے ہاں تقریباً ناپید دکھائی دیتا ہے۔ اِس لیے کہ یا تو وہ اظہارِ ذات اور داخلی جذبات کے زیرِ اثر رہی ہیں یا پھر چند شاعرات نے نظم و نثر میں خواتین کے حقوق کا پرچم بلند کیا ہوا ہے۔ انسانیت کے دکھ درد پر انسا ن کی لب بستگی اور کور چشمی پر کہیں صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں اور کہیں بے حسی دیکھ کر جھنجھلا اٹھتی ہیں۔اُن کے ہاں دنیا اور اُس کے متعلقات کے حوالے سے سفّاک حقیقت پسندی اور ازلی سچائیاں موجود ہیں۔میں اِسے ترکِ دنیا یامردم بیزاری نہیں بلکہ اِس عہد کی سچائی تصور کرتا ہوں، جسے ایک شاعرہ نے دردِ دل کے ساتھ محسوس کیا اور اُس کی حقیقت پر شاعرانہ اظہارِ خیال کیا ہے۔یہ ایک نازک اور دشوار کام ہے۔اُن کی دو غزلیات جو ایک ہی فضا میں کہی گئی ہیں، اُن سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

چپ چاپ فضا ہے کوئی ہلچل بھی نہیں ہے
کیا کوئی یہاں درد سے بے کل بھی نہیں ہے
بے حس ہیں یا ظالم کی حمایت میں کھڑے ہیں
پیشانی پہ حیرت ہے کہ اک بل بھی نہیں ہے
سانسوں کو بھی چلنے کی اجازت نہیں دیتے
کیا جبرِ مسلسل کا کوئی حل بھی نہیں ہے
٭
جھلسی ہوئی اک درد کی ماری ہوئی دنیا
اک ظلم کے آسیب سے ہاری ہوئی دنیا
قدرت نے سجایا ہے اسے لالہ و گل سے
کیا ہم نے دیا جب سے ہماری ہوئی دنیا
جو ہو گیا دنیا کا وہ اپنا نہیں رہتا
اپنے سے بھی زیادہ جسے پیاری ہوئی دنیا
اک کھیل تماشہ نہیں یہ چیز الگ ہے
تم شوق سے لے لو کہ تمہاری ہوئی دنیا
مٹھی میں دبی ریت کے مانند یہ بکھرے
یاد آتی ہے رہ رہ کے گزاری ہوئی دنیا
گرتوں کو سنبھلنے کی یہ مہلت نہیں دیتی
چڑھتے ہوئے سورج کی پجاری ہوئی دنیا
ہے اتنی کشش اس میں کہ دیوانہ بنائے
جیسے کہ ہو جنت سے اتاری ہوئی دنیا

غزل میں جذبوں کا تہذیبی رکھ رکھاؤ، سوزِ دروں، کسک اور تڑپ اپنی جگہ، انسان کے دکھ درد اور مسائل و تکالیف کا کرب بھی اپنی جگہ مگر وہ شب کی زلفوں میں روشنیاں پرونے پر یقین رکھتی ہیں۔اُن کے سخن محض غنائی شاعری نہیں، جذبوں میں ارتعاش پیدا کرنے والے ترانے بھی ہیں ۔ وہ غروبِ مہر کے منظر وں کو گلابوں کا طشت سمجھیں یا نہ سمجھیں، رات کے پس منظر میں سحر کا یقین رکھنے والوں میں سے ہیں۔اُن کی آگہی داخلیت اور لاشعور سے پھوٹتی روشنی کے سبب ہے۔ اُن کی فکری توانائی اور احساسِ جمال اُس رجائیت کے باعث بھی ہے جس کی وجہ سے کسی تخلیق کی سماجی اور معاشرتی قدرو قیمت متعین ہوتی ہے:

یقین رکھ سبھی منظر بدلنے والے ہیں
قدم ملا کے سبھی ساتھ چلنے والے ہیں
ستم کو سہہ کے کہاں تک رہے گی خاموشی
یہی وہ لوگ جو طوفاں میں ڈھلنے والے ہیں
انہیں تو دھوپ بھی پگھلا نہیں سکتی
کسی کی یاد کے صحرا میں جلنے والے ہیں
ذرا سی ہمت و جرأت سے کام لینا ہے
ہمارے سر سے یہ طوفان ٹلنے والے ہیں
٭
حوصلہ رکھتے ہیں طوفان سے ٹکرانے کا
ورنہ جینا یہاں آسان کہاں ہوتا ہے
٭
خوشی سے گزرے یہ سب کے لیے تو اچھا ہے
یہ زندگی ہے اسے بھی وبال مت کرنا
صباؔ جو آئے گی مشکل وہ حل بھی کر لیں گے
خود اپنے واسطے جینا محال مت کرنا
٭

Related posts

Leave a Comment